جہاں میں ہوں

جہاں میں ہوں
ہزاروں خواہشیں آسودگی کی زندگی کا پیرہن بن کر
مری مجبوریوں کو اپنے دامن میں چھپاتی ہیں
تخیل کا جہاں آباد گاہے کچھ نئے
لیکن ہزاروں وقت خوردہ خوش نظر گوشوں کی زندانی
طلسماتی فضا میں دل کشی کا نور بھرتا ہے
انہی گوشوں میں آوارہ خرامی کی حکایت
مجھ کو کیف سرمدی کے بے زباں لمحوں کی
رعنائی سے ہم آغوش کرتی ہے
شبانہ روز کی جہد مسلسل سے
انوکھی عظمتوں کے دائروں میں لا کے نا آسودگی کی زندگی کو میں
کمال انداز استغنا سے اپناتا ہوں
اپنے جی میں یہ ٹھانے
کوئی اس کو نہ جانے گا
کوئی مجھ کو نہ پائے گا
زمانے کی حقیقت میں نگاہوں کو
بھلا روکا کسی نے اصل کی تگ تک پہنچنے سے
یہ میری دل گرفتہ کیفیت جس نے
پیا ہے زندگی بھر خون رگ جاں کا
برہنہ بات کہنے پر بھی مجھ کو اس طرح عریاں نہیں کرتی
نگاہ اہل دل میں فاش کرتی ہیں مجھے جیسے
مری مجبوریاں جن کی پیاس رنج محرومی
تہہ دامن لہو سے اپنے سینچا تھا