ترس رہا ہوں قرار دل و نظر کے لئے

ترس رہا ہوں قرار دل و نظر کے لئے
سکوت شب میں دعا جس طرح سحر کے لئے


میں خاک راہ گزر ہوں کہ مسند گل ہوں
اک اضطراب مسلسل ہے عمر بھر کے لئے


شجر کہ جن سے اداسی ٹپکتی رہتی ہے
یہ سنگ میل ہیں شاید مری نظر کے لئے


جمال دوست کو مشعل بنا لیا میں نے
وفا کہ رخت سفر ہے مرے سفر کے لئے


ترے خیال کا ایواں لہو سے روشن ہے
مری نظر کا اجالا ہے رہ گزر کے لئے


شکست جس سے زمانہ لرزتا رہتا ہے
وہی نوید مسرت بھی ہے ظفرؔ کے لئے