طرح طرح سے وضاحت کی بات کی اس نے
طرح طرح سے وضاحت کی بات کی اس نے
گھما پھرا کے محبت کی بات کی اس نے
ہواؤں سے بھی کہا خواب دیکھنے کے لیے
چراغ سے بھی سہولت کی بات کی اس نے
فسردگی کو فسانے کا روپ دیتے ہوئے
حکایتوں سے حقیقت کی بات کی اس نے
مجھے گواہ ضرورت ہے اس عدالت میں
کبھی کسی سے نیابت کی بات کی اس نے
وہ یوں جو لوٹنا چاہے اسے سہولت ہو
دیا بجھا کے حمایت کی بات کی اس نے
تمام سرو نگوں سار تھے پہاڑوں پر
اچانک اس قد و قامت کی بات کی اس نے
پڑے ہی رہ گئے جاویدؔ ہم بریدہ قدم
گلے لگا کے جو رخصت کی بات کی اس نے