شعور ذات نے بیدار کر دیا مجھ کو

شعور ذات نے بیدار کر دیا مجھ کو
بدن کو چاٹ کے مسمار کر دیا مجھ کو


سبھی درخت کشادہ تھے بازووں کی طرح
عجیب راہ تھی سرشار کر دیا مجھ کو


پھر ایک خواب نے دستک کا باب بند کیا
اور ایک نیند میں بیدار کر دیا مجھ کو


نظر کے سامنے اک نیلگوں سمندر تھا
بس ایک موج تھی کہ پار کر دیا مجھ کو


میں اس سے پہلے محبت میں جان دے دیتا
کسی نظر نے خبردار کر دیا مجھ کو


ازل سے سہل تھا فطرت کی اصل پر جاویدؔ
یہ کس نے اور بھی دشوار کر دیا مجھ کو