طنز کے پتھر مسلسل ہم پہ برساتے رہے

طنز کے پتھر مسلسل ہم پہ برساتے رہے
کچھ کرم احباب اپنے یوں بھی فرماتے رہے


عشق کا الزام تنہا کیوں رہے میرے ہی سر
دم بہ دم تم بھی تو میری راہ میں آتے رہے


شور میں آواز ان کی کوئی بھی سنتا نہ تھا
بھیڑ میں کتنے گداگر ہاتھ پھیلاتے رہے


آپ نے شاید ہمارا حوصلہ دیکھا نہیں
زخم کھا کر دوستوں پر پھول برساتے رہے


غیر ممکن تھا زمانے میں مرے دل کا علاج
جانے کیا کیا کہہ کے ہم کو لوگ بہلاتے رہے


اس کی یادوں سے سجائی اپنی بزم آرزو
دل کو تنہائی میں اظہرؔ یوں بھی بہلاتے رہے