میرے ہونے کا تماشا نہیں ہونے دیتا

میرے ہونے کا تماشا نہیں ہونے دیتا
ظرف دھیما مرا لہجہ نہیں ہونے دیتا


جھیل کی طرح مجھے قید کیا ہے اس نے
میرے جذبات کو دریا نہیں ہونے دیتا


استعانت وہ بہرحال کیا کرتا ہے
میرا مالک مجھے رسوا نہیں ہونے دیتا


میری عادت ہے کہ پوشیدہ مدد کرتا ہوں
اپنے ہمسائے کو رسوا نہیں ہونے دیتا


نت نئے درد دیا کرتا ہے دلبر مجھ کو
غم دنیا کو اکیلا نہیں ہونے دیتا


جس کو پالا کہ بڑھاپے کی بنے گا لاٹھی
خود کا بیٹا یہ سہارا نہیں ہونے دیتا


ڈال دیتا ہے وہ رشتوں میں دراڑیں اظہرؔ
بھائیوں کو کبھی یکجا نہیں ہونے دیتا