قیامت کی تڑپ غم انتہا کا

قیامت کی تڑپ غم انتہا کا
صلہ ہم کو ملا ہے یہ وفا کا


بھرم ٹوٹا نہیں میری انا کا
ابھی تک فضل ہے اظہر خدا کا


ہمیں پھر خوف کیا روز جزا کا
وسیلہ ہے محمد مصطفیٰ کا


سنبھل کر کیجئے گا گفتگو بھی
مخالف آج کل ہے رخ ہوا کا


مزہ آنے لگا ہے درد دل میں
اثر شاید ہے یہ میری دعا کا


کوئی خائف نہ اس کو کر سکے گا
جو دامن تھام لے مشکل کشا کا


جہاں سچ بولنا ہے جرم اظہرؔ
وہاں کیا کام ہے اہل صفا کا