طلب روٹی کی تڑپائے تو خطرے بھول جاتے ہیں
طلب روٹی کی تڑپائے تو خطرے بھول جاتے ہیں
پرندوں کو شکاری کے شکنجے بھول جاتے ہیں
زمانے نے ازل سے ہی یہ اپنی ریت ہے رکھی
جو سستا کچھ میسر ہو تو مہنگے بھول جاتے ہیں
مشقت کی نہج اک دن انہیں کندن بناتی ہے
جو بچے مفلسی کی زد میں بستے بھول جاتے ہیں
ہوا ہے خون کا پیاسا یہاں پر ہر کوئی بندہ
ہوس دولت کی بڑھ جائے تو اپنے بھول جاتے ہیں
سبھی کاموں کو اپنے ہم نبھاتے ہیں سلیقے سے
الجھ کر تیری یادوں میں نوالے بھول جاتے ہیں
تو اپنی بے نوائی پر زیادہ غم نہ کر ناصرؔ
لگے جب عشق کی ٹھوکر تو رستے بھول جاتے ہیں