کہاں دنیا سے لڑنا ہے کہاں خود سے بغاوت ہے
کہاں دنیا سے لڑنا ہے کہاں خود سے بغاوت ہے
اسے سمجھا رہا ہوں جو محبت کی روایت ہے
ہزاروں دکھ اٹھاتا ہوں ہزاروں زخم کھاتا ہوں
مگر جاتی نہیں یہ مسکرانے کی جو عادت ہے
جہاں پر جب بھی جی چاہے زمیں پر بیٹھ جاتا ہوں
کہ میرے جسم کی مٹی کو مٹی سے محبت ہے
میں اپنے گاؤں کے سب کھیت کھالے یاد رکھتا ہوں
نہ جانے شہر میں رہتے ہوئے یہ کیسی عادت ہے
ہمیں کچھ اس لئے بھی عمر بھر اب ساتھ رہنا ہے
تجھے میری ضرورت ہے مجھے تیری ضرورت ہے
زمیں پر پاؤں رکھ کر کوئی چلتا ہی نہیں ناصرؔ
نہیں معلوم اس دنیا میں کس کو کتنی عجلت ہے