تلاش کر مری بربادیوں کا حل بابا
تلاش کر مری بربادیوں کا حل بابا
جو تو کہے گا کروں گا وہی عمل بابا
طرح طرح کے یہ چولے نہ تو بدل بابا
تجھے جو فیصلہ کرنا ہے کر اٹل بابا
فقیر بن نہیں سکتا تو اوڑھ کر کملی
خودی کو دل سے مٹا نفس کو کچل بابا
نشے میں زر کے بہت پگڑیاں اچھالی ہیں
ضرور تجھ کو ملے گا کیے کا پھل بابا
تری تلاش میں دیر و حرم کو چھان لیا
کہاں چھپا ہے تو آواز دے نکل بابا
فریب حسن سے واقف نہیں ہے تو سن لے
ڈگر ڈگر ہے کٹھن جائے گا پھسل بابا
لگا ہے کون سا غم تجھ کو یہ بتا احمرؔ
اداس کس لئے رہتا ہے آج کل بابا