تلاش نور

فکر و آلام کے بادل میں ہیں انوار حیات
روشنی کیا کسی تنویر کا پرتو بھی نہیں
نوع انساں کی فضاؤں پہ ہے ظلمت کا جماؤ
شمع مہتاب کا کیا ذکر کوئی لو بھی نہیں


ذہن تاریک ہیں اجسام کی دنیا ہے سیاہ
ہے عناصر کی فضاؤں میں تلاطم برپا
امن کی موج کا ملتا نہیں ہلکا سا نشاں
زندگی میں ہے مقاصد کا تصادم برپا


برتری پیکر و اجسام کی ہے جو کچھ ہے
روح کو قابل تضحیک کہا جاتا ہے
کیا زمانہ ہے کہ ظلمت کو سمجھتے ہیں نور
نور کو جادۂ تاریک کہا جاتا ہے


آؤ اے اہل خرد اہل جنوں اہل زمیں
بزم ہستی میں محبت سے چراغاں کر دیں
روح‌ عرفاں کا عناصر کو سنا کر پیغام
آج انسان کو پھر محرم انساں کر دیں