کہیں جمال ازل ہم کو رونما نہ ملا

کہیں جمال ازل ہم کو رونما نہ ملا
ملے تو حسن مگر حسن آپ سا نہ ملا


رہی تلاش مگر درد آشنا نہ ملا
ہمارے بعد انہیں ہم سا با وفا نہ ملا


گئے ہیں دیر و حرم میں بھی بارہا لیکن
وہ آسرا جو دیا تو نے ساقیا نہ ملا


جو دور تھے تو بہت پارسا تھے یہ زاہد
جو پاس آئے تو کوئی بھی پارسا نہ ملا


مقابلے کی جو طاقت تھی وہ ابھر تو سکی
خدا کا شکر ہے کشتی کو ناخدا نہ ملا


جواب جنت رنگیں سہی تری دنیا
مگر ہمیں تو یہاں لطف اے خدا نہ ملا


ہوا و حرص کے لاکھوں شکار پائے مگر
کوئی بھی درد محبت میں مبتلا نہ ملا


جو چشم مست سے چھلکا کے دے الست کی مے
ترے سوا کوئی دنیا میں ساقیا نہ ملا


مجھی کو بخش دئے کل جہان کے آلام
غم جہاں کے لئے کوئی دوسرا نہ ملا


کہوں تو کس سے کہوں دل کی بات اے درشنؔ
سنے جو درد بشر ایسا ہم نوا نہ ملا