تخلیق

سر سبزی مستی شادابی جھونکوں کا مدھم سنگیت
ہرے بھرے کھیتوں میں ننھے منے پودوں کی سرسر
مٹی کے زرخیز بدن کی سوندھی سوندھی سی خوشبو
رو پہلی چمکیلی دھوپ کی پیاری پیاری سی لذت
پیڑوں کے ٹھنڈے سایوں میں شفقت کی ہلکی سی آنچ
پگڈنڈی کے موڑ پہ لہراتے آنچل کی رنگینی
جسموں میں قوت کی موجیں آنکھوں میں بھرپور چمک
ہنستے کھیلتے ننھے بچے انگ انگ میں طراری
زرخیز و شاداب زمیں پر ہستی یوں لہراتی ہے
جیسے اک معصوم سی بچی گڑیا لے کر ناچ اٹھے


سینے باہیں زلفیں ہونٹ جواں جسموں کی لہراہٹ
رقص و نغمہ جام و مینا ساقی کی آنکھوں کی تھکن
محل و ایواں گرمیٔ لذت خوابوں کا مسرور جہاں
مسجد کے اونچے مینارے مندر کا سونے کا کلس
شور و غوغا ہنگامے افسانے جیسے مرنے کے
محکومی کلفت شورش زخموں کی بوچھاریں ہر سو
جنگ قحط بیماری حسرت جینے والوں کی دولت
رنگ رنگ کے پرچم ظلم و تشدد کے سارے ساماں


جینے والوں کی دنیا ہر لمحہ رنگ بدلتی ہے
خستہ امکانات کی کڑیاں ٹوٹ کے گرتی ہیں
آبادی اور ویرانہ مفہوم بدلتے رہتے ہیں
دکھتی روتی دھرتی پر ہستی شور مچاتی ہے
جیسے اک ننھی بچی شفقت کی بھوکی چیخ اٹھے


آج مگر سینے میں یہ احساس دھڑکتا ہے پیہم
میں اس دور کا انساں ہوں جس میں سارے انسانوں نے
اپنے جیتے جاگتے عزم امن و سکوں کی قوت سے
ایک نئے امکان کی شمع روشن کی ہے دھرتی پر
ایک نئی منزل کی جانب اپنے قدم بڑھائے ہیں
قوت محنت اور مسرت کے رستے اپنائے ہیں


احساسات کی تصویریں یہ سائے دوڑتے لمحوں کے
دھرتی کی تخلیق ہیں اس کی گود میں پھلتے پھولتے ہیں