خرگوش کا غم

حریف کون تھا غلیظ بد نما سا جانور
وہ بے خبر
جو رینگتا ہوا چلا
جو رینگتا چلا گیا
نہ جانے کس جہان سے تمہاری رہ میں آ گیا
اصول بن کے زندگی کے آسماں پہ چھا گیا


تمہیں یہ غم ستا رہا ہے آج بھی
غلط گھڑی میں نیند تم کو آ گئی
ستم عجیب ڈھا گئی
مذاق ہی مذاق میں
زمانے بھر کے سامنے تمہارا سر جھکا گئی
یقین سے فرار تک
ہزار مرحلے تمہارے ذہن سے گزر گئے
دل و نظر کو وسوسوں سے بھر گئے
شکست کی خلش بڑی شدید تھی
کسی طرح نہ مٹ سکی
حروف پر خطر سے فیصلوں کو تولتی رہی
انا کے مضطرب لہو میں زہر گھولتی رہی