زرد لڑکی کا چہرہ
منجمد خون جب سرخ سے کل سیہ ہو گیا
خاک پا واقعہ ہو گیا
زرد لڑکی کا چہرہ فرشتوں نے دیکھا تھا
رنگوں کی ترتیب میں
جانے پہچانے چہروں سے میری ملاقات جب اجنبی سی لگی
آئنہ دیکھنے کے لئے میں اٹھا آئنہ ہو گیا
تیرگی سے گزرتی ہوئی روشنی برگ اسرار تھی
آنکھ کے سامنے روشنی خون تھی
خون پہلے گرا منجمد ہو گیا پھر سیہ ہو گیا
زرد لڑکی کا چہرہ
گزرتا ہوا برگ اسرار تھا
رہ گزر سے لپک کر مکاں میں گیا
پھر دریچے میں ابھرا
فرشتوں نے دیکھا تھا
میں نے بھی دیکھا تھا
میں بھی فرشتہ تھا
کل کے فسانے کی ترتیب میں لفظ مجھ سے جدا تھے
مگر آج میرے ہیں کیوں آج بھی اجنبی ہو گئے ان کو کیا ہو گیا
ان کو کیا ہو گیا
منجمد خون پہلے سیہ ہو گیا
پھر فقط واقعہ تھا
مگر زرد لڑکی کا چہرہ عجب نقش تھا
میں مٹاتا تھا لیکن وہ مٹتا نہ تھا
دید کا حادثہ پہلے منظر بنا
پھر فقط ایک منظر سے بیکار سا سلسلہ ہو گیا
زرد لڑکی کا چہرہ خدا سے بڑا خواب تھا