تباہ زیست مگر ایک بازی گر نے کی
تباہ زیست مگر ایک بازی گر نے کی
وگرنہ وجہ نہ تھی ٹوٹ کر بکھرنے کی
وہ اڑ چکا ہے تو پھر اس کی مان لیتے ہیں
اسے تو ضد سی ہے الزام ہم پہ دھرنے کی
تمام خواب پریشاں تھے شب کی محفل میں
نہ جانے بات کیا تاروں سے چشم تر نے کی
وہ رتھ میں آنکھ کی ہر پل چمکتا رہتا ہے
یہ رت ہے جگنوؤں کے خاک پر اترنے کی
ہے چھید چھید مرا دامن سوال بھی اب
عجیب حالت دل میرے جادوگر نے کی
سماعتوں کا نشہ ہے کہ شور پائل کا
خرد بھی چھین گئی ہیں صدائیں جھرنے کی
کتاب وقت کا ہر باب حفظ کر ڈالا
پڑھی نہ مشق مگر قول سے مکرنے کی
نہیں تھی زیست مقدر نہ بچ سکے ورنہ
بہت سعی مرے معصوم چارہ گر نے کی
رشیدؔ ہم نے فقیری میں وقت کاٹ لیا
اگرچہ تاج سجانے کی ضد بھی سر نے کی