تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہو گئے

تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہو گئے
شاید سحر سے پہلے ہی بیدار ہو گئے


یہ کون سا مقام رہ و رسم ہے کہ وہ
اتنے ہوئے قریب کہ بیزار ہو گئے


منزل کی سمت تجھ کو نہ لے جائیں گے کبھی
وہ راستے جو آپ ہی ہموار ہو گئے


ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا
اتنے ہوئے ذلیل کہ خوددار ہو گئے


اب کے تو نوک خار بھی گل رنگ ہو چلی
کل دیکھنا کہ دشت بھی گلزار ہو گئے


نوریؔ ہمیں جہاں میں مسرت کی تھی تلاش
آخر ہر ایک شخص کے غم خوار ہو گئے