پوچھتے کیا ہو مرے تم دل‌ دیوانے سے

پوچھتے کیا ہو مرے تم دل‌ دیوانے سے
عشق کے رمز کو پوچھو کسی فرزانے سے


جی نکل جاوے گا ظالم مرا اب جانے سے
یاں نہ آنا ہی بھلا تھا ترے اس آنے سے


روز کے دکھ سے چھٹا رات کے جلنے سے رہا
دوستی شمع نے کی دوستو پروانے سے


دل بجا لاوے گا جو کچھ اسے کیجے ارشاد
یہ تو باہر نہیں کچھ آپ کے فرمانے سے


یوں یکایک جو ہوئے اس کے جگر کے ٹکڑے
نہیں معلوم کہا زلف نے کیا شانے سے


ضبط لازم ہے جب ہی تک کہ نہ ہو آنکھ میں اشک
اب تو بھر آیا ہے دل اشک کے بھر آنے سے


رو لے دل کھول کے تو اس گھڑی آصفؔ اپنا
نہیں گھٹ جاوے گا دم اشک کے پی جانے سے