تا ابد ایک ہی چرچا ہوگا
تا ابد ایک ہی چرچا ہوگا
کوئی ہم سا کوئی تم سا ہوگا
اسی تاریک زمیں کا منظر
چاند پر چاندنی جیسا ہوگا
سورج آیا ہے مری سمت مگر
دوسری سمت اندھیرا ہوگا
کاش پہلے سے کوئی بتلا دے
کس طرح ذکر ہمارا ہوگا
ایسے بیگانہ نہ سننا لوگو
یہ بھی افسانہ کسی کا ہوگا
وہ نہیں آئے گا اس محفل میں
دور ہی دور سے سنتا ہوگا
آئی بے ساختہ ہر شعر پہ داد
کتنے معنی نہیں سمجھا ہوگا
کون تھا جس نے رکھی تجھ سے امید
ہاں تو وہ شخص مجھی سا ہوگا
کون تھا ابر جو بن کر برسا
ہاں تو وہ تجھ کو ترستا ہوگا
کون تھا جس سے ہوئی طے منزل
ہاں تو پہلے وہ بھٹکتا ہوگا
کون تھا جس سے یہ شعلے بھڑکے
ہاں تو وہ خوب سلگتا ہوگا
تم رہو چپ کہ غزل خواں عالؔی
نہ برا ہوگا نہ اچھا ہوگا