سکون دل کے لئے اور قرار جاں کے لئے

سکون دل کے لئے اور قرار جاں کے لئے
تمہارا نام ہے کافی مری زباں کے لئے


جو پر ہے جام تو کچھ خوف حادثات نہیں
ہمارے پاس بھی بجلی ہے آسماں کے لئے


خموشئ رہ منزل سے یہ ہوا ثابت
کہ منزلیں بھی ترستی ہیں کارواں کے لئے


مثال شمس و قمر گردشوں میں رہتے ہیں
خدا نے جن کو بنایا ہے آسماں کے لئے


ہوس نے خلد اجل نے چھڑائی یہ دنیا
خبر نہیں مری مٹی ہے اب کہاں کے لئے


شب فراق دعا مانگ کر گزاری ہے
کبھی اثر کے لئے اور کبھی فغاں کے لئے


ہمارے ذہن میں دل میں لہو میں اردو ہے
جئیں گے اور مریں گے اسی زباں کے لئے


پہنچ گئے سر منزل جو ہم سفر تھے فلکؔ
ہمیں ترستے رہے گرد کارواں کے لئے