صبح صادق
رہ گیا راہ میں جب کچھ بھی نہ کانٹوں کے سوا
تیرگی جھوٹ کی جب چھا گئی سچائی پر
افق زندہ و پائندۂ ننکانہ سے
ہنس پڑی ایک کرن وقت کی تنہائی پر
دل کے سنسان کھنڈر میں کوئی نغمہ جاگا
آنکھ ملتی ہوئی اک صبح بیاباں سے اٹھی
فکر آزاد ہوئی ذہن کے جالے ٹوٹے
اور ایقان کی لو سینۂ انساں سے اٹھی
زہر میں ڈوب گئی تھیں جو زبانیں یکسر
ان پہ شیرینیٔ وحدت کے ترانے آئے
جسم مرتا ہے مگر روح کہاں مرتی ہے
روح اک نور ہے اور جسم تھرکتے سائے
جسم کانٹوں سے گزرتا ہے گزر جانے دو
روح وہ پھول ہے جس پر نہ خزاں آئے گی
روح پی لے گی جو عرفان و محبت کی شراب
مستی و کیف ہمیشہ کے لیے پائے گی
پیر ننگانہ تری روح صداقت کو سلام
جاوداں پرچم الفت ترا لہراتا ہے