سوز و گداز

کیوں تامل ہے تجھے روز اجل آنے میں
زیست کا لطف ملے گا مجھے مر جانے میں
نہ سنو قصۂ آلام تڑپ جاؤ گے
درد اور سوز بھرا ہے مرے افسانے میں
قلب مضطر کو بنا رکھا ہے گھر حرماں نے
اور کیا چیز ہے اس دل کے سیہ خانے میں
اب چھلکنے کو ہے ساقی مرے جیون کا گلاس
بھر گیا آب فنا عمر کے پیمانے میں
خرمن صبر و سکوں خاک نہ ہو کیوں جل کر
بجلیاں کوند رہی ہیں مرے کاشانے میں
پردۂ جہل اٹھا دیجئے آنکھوں سے ذرا
جلوۂ حق نظر آئے گا صنم خانے میں
آفتابؔ آ کہ مصیبت کے ہیں آثار عیاں
جوش وحشت ہے فزوں اور بھی دیوانے میں