سہراب گوٹھ: لسانی تشدد کی نئی لہر، سندھی پٹھان لڑائی معاملہ آخر ہے کیا؟

کراچی ایک بار پھر لسانی تنازع کا شکار ہے۔۔۔کراچی پاکستان کا دبئی ہے، یہاں پاکستان کے ہر علاقے سے لوگ یہاں کاروباری سرگرمیوں کے لیے آبسے ہیں۔ یہاں مختلف قومیتیں اور زبانوں کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں کی سیاست کا محور اکثر قوم پرستی اور لسانی اختلافات کے گرد گھومتی ہے۔ سندھ میں جہاں بھی کوئی جھگڑا یا تنازعہ رونما ہوتا ہے لامحالہ اس کے اثرات بھی کراچی میں ضرور نظر آتے ہیں۔

کراچی میں حالیہ لسانی تشدد کی لہر کے محرکات میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے جو حیدرآباد میں ہوا۔ حیدرآباد میں کیا ہوا تھا؟ اس واقعے سے سندھی پٹھان کے مسئلے سے کیا تعلق ہے؟ سہراب گوٹھ میں احتجاج کون کررہا ہے؟ سندھی قومیت پرست سیاست دان کا کیا ردعمل ہے؟ کیا سندھ حکومت بے بس ہے؟ اس واقعے کو افغانیوں سے کیوں جوڑا جارہا ہے؟

حیدر آباد میں ہوٹل میں ہونے والی قتل کی واردات۔۔۔کیا ہوا تھا؟

یہ 11 جولائی کی رات کا واقعہ ہے جب تین نوجوان عید الاضحیٰ کے موقع پر شہر سے باہر سفر پر تھے۔ انھوں نے حیدرآباد بائی پاس کے قریب ودھو واہ پر واقع سپر سلاطین ہوٹل پر کھانے کے لیے رُکے۔ یاد رہے کہ کراچی اور حیدر آباد میں اکثر ہوٹل افغانی یا پٹھان لوگ چلاتے ہیں۔ حیدرآباد کے اس ہوٹل کا مالک بھی افغانی پٹھان تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان تینوں لڑکوں کا کھانے کے بِل پر توتکار ہوئی اور جھگڑا طول پکڑ گیا۔ ہوٹل مالکان نے تینوں نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور مبینہ طور پر ایک لڑکے کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ جبکہ باقی دو نوجوان زخمی ہوئے۔ ان سب کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔

حیدر آباد میں قتل ہونے والا نوجوان کون تھا؟

حیدرآباد میں قتل ہونے والے اس نوجوان کا نام بلال کاکا تھا اور اسی کی عمر 35 برس تھی۔ اس کا تعلق حیدرآباد کے علاقے نیو سعیدآباد سے تھا۔ وہ ایک تعلیمی ادارے میں سکیورٹی سپروائزر کا کام کرتا تھا۔ بلال کاکا سندھ کی قوم پرست سیاست میں بھی سرگرم تھا۔ اس کا تعلق سندھ قوم پرست جماعت 'جئےسندھ قومی محاذ' سے تھا۔ حیدرآباد پولیس کے مطابق بلال کاکا مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھا اور اس پر 12 سے زائد مقدمات درج ہیں جن میں، غیر قانونی سلحہ رکھنے اور ارادہ قتل اور انسداد دہشت گردی کا الزام شامل ہیں۔ یہ مقدمات حیدرآباد، ٹنڈو جام اور مٹیاری میں درج ہیں۔

حیدرآباد واقعے کے بعد ردعمل

بلال کاکا کے لواحقین نے پولیس کی کارکردگی اور فوری ایکشن نہ لینے پر میت کے ساتھ حیدرآباد بائی پاس پر احتجاج اور دھرنا شروع کردیا۔ جئے سندھ قومی محاذ کے راہنما  نیاز کالانی اس احتجاج کی قیادت کررہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی جائیں اور ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ قوم پرستوں نے ہوٹل مالکان کو افغانی قرار دیا جس کے بعد سندھ کے کئی شہروں میں احتجاج کیا گیا۔ ان قوم پرستوں جماعتوں میں جئے سندھ قومی محاذ، ھئے سندھ محاذ، سندھ یونائیٹڈ پارٹی وغیرہ شامل تھیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سندھ سے افغان پاشندوں کو بے دخل کیا جائے۔ کئی مقامات پر پٹھانوں کی دکانیں زبردستی بند کروانے کی بھی اطلاعات ملیں اور کئی ہوٹلوں کو بھی بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس کے بعد کشدگی میں اضافہ ہوگیا۔

سہراب گوٹھ میں احتجاج کرنے والے کون ہیں؟

نواب شاہ اور سکھر سمیت کئی علاقوں میں پٹھان برادری کے چائے کو ہوٹلوں بند کرنے کے دوران نقصان بھی پہنچایا گیا۔ اس کے خلاف 14 جولائی کو پشتون برادری نے کراچی میں سہراب گوٹھ پر سپر ہائی وے کو احتجاجاً بند کردیا۔ پولیس نے کشیدہ صورت حال کے پیش نظر جمالی پُل سے موٹر کو بند کردیا۔ مظاہرین نے ال آصف سکوائر کے قریب پولیس پر بھی حملہ کیا اور ایک گاڑی کو صگ لگادی۔ اس کے بعد رینجرز کی بھاری نفری اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پہنچی۔ ایک رپورٹ کے مطابق مشتعل افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوئے۔ پولیس نے جلاؤ گھیراؤ اور امن عامہ کو نقصان پہنچانے کے الزام میں 150 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا۔

سہراب گوٹھ: افغانیوں کا گڑھ کیوں سمجھا جاتا ہے؟

سہراب گوٹھ کراچی کا داخلی دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیاری دریا پر ایک پُل ہے جو سہراب گوٹھ کے کراچی کے دوسرے علاقوں سے جوڑتی ہے۔الآصف اسکوائر اور معمار اسکوائر کا علاقہ بھی سہراب گوٹھ میں شمار کیا جاتا ہے۔ کراچی کے مشہور علاقے سہراب گوٹھ کو پشتون برادری کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔  یہاں رہنے والوں کی بڑی تعداد محسود قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا تعلق وزیرستان سے ہے۔ اس کے علاوہ یہاں افغان مہاجروں کی بھی ایک بڑی تعداد آباد  ہے جس کی وجہ سے سہراب گوٹھ افغانی پشتونوں کا گڑھ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کراچی میں حالیہ لسانی تشدد کو سندھی پٹھان تنازعے کا نام دیا جارہا ہے۔

آخر سندھی پٹھان معاملہ ہے کیا۔۔۔اس کے محرکات کیا ہیں؟ اس لسانی تنازعے کا ذمہ دار کون ہے؟۔۔۔۔اس بارے میں اگلی قسط میں بات کریں گے۔

متعلقہ عنوانات