سیاہ رات کی ہر دل کشی کو بھول گئے
سیاہ رات کی ہر دل کشی کو بھول گئے
دیئے جلا کے ہمیں روشنی کو بھول گئے
کسی کلی کے تبسم نے بیکلی دی ہے
کلی ہنسی تو ہم اپنی ہنسی کو بھول گئے
جہاں میں اور رہ و رسم عاشقی کیا ہے
فریب خوردہ تری بے رخی کو بھول گئے
یہی ہے شیوۂ اہل وفا زمانے میں
کسی کو دل سے لگایا کسی کو بھول گئے
ذرا سی بات پہ دامن چھڑا لیا ہم سے
تمام عمر کی وابستگی کو بھول گئے
خدا پرست خدا سے تو لو لگاتے رہے
خدا کی شان مگر آدمی کو بھول گئے
وہ جس کے غم نے غم زندگی دیا ہے ظفرؔ
اسی کے غم میں غم زندگی کو بھول گئے