ستم کی بات جہاں حرف معتبر ٹھہرے
ستم کی بات جہاں حرف معتبر ٹھہرے
نوائے درد وہاں کیوں نہ بے اثر ٹھہرے
ہزار حیف کہ جو آگہی کے دشمن تھے
ہمارے شہر میں وہ لوگ دیدہ ور ٹھہرے
تمام عمر ستاتا رہا بس ایک خیال
وہ خواب کاش ان آنکھوں میں عمر بھر ٹھہرے
کبھی تو دل کو میسر سکون ہو یا رب
کہیں تو جا کے یہ بھٹکی ہوئی نظر ٹھہرے
گراں گزرتی تو ہے اس کی تلخیٔ گفتار
عجب نہیں کہ وہی شخص معتبر ٹھہرے