نگری نگری گھوم کے دیکھا ہم کو لگے انجانے لوگ
نگری نگری گھوم کے دیکھا ہم کو لگے انجانے لوگ
اپنی اپنی سب کو پڑی ہے درد سے ہیں بیگانے لوگ
کیسے کیسے گل ہیں کھلائے اہل خرد کی حکمت نے
کون سنے گا بات ہماری ہم ٹھہرے دیوانے لوگ
آگ لگانا کھیل تھا جن کا درد کے لالہ زاروں میں
شعلۂ سوزاں سے لرزاں ہیں آج وہی فرزانے لوگ
کس کی تمنا کون سے ارماں کس کا تصور کون سے خواب
پاس تھا جو بھی کھو کر لوٹے نکلے تھے کچھ پانے لوگ
مارے مارے پھرتے رہے ہم حال نہ پوچھا ایک نے بھی
خواب ہیں سب کے بکھرے بکھرے بھول چکے افسانے لوگ