سمٹ رہی تھی وہاں رات پیکر جاں میں

سمٹ رہی تھی وہاں رات پیکر جاں میں
عجیب ہو کا سماں تھا دیار جاناں میں


وہ ٹکٹکی ہی نہ تھی لفظ جس سے بول اٹھے
کوئی صدا ہی نہ تھی اب تو دشت امکاں میں


کہاں گیا وہ ترے ساتھ کا تعلق جاں
کہ سب اندھیرے تھے پنہاں جبین تاباں میں


حیات زار ہوئی دیکھتے رہے ہم بھی
کہ کوئی بھی تو پشیماں نہ تھا دل و جاں میں


میں تیرا راز تھا تیرے وجود سے پہلے
تری تو چھب بھی نہ تھی جب دیار خوباں میں


مرض ضرور ہے آشفتگی نے جان لیا
مگر امید نہیں رہ گئی تھی درماں میں


وہ طے شدہ تھا جسے پوچھنے چلے تھے متینؔ
نہیں نہیں میں ملا کچھ نہ اس کی ہاں ہاں میں