پس دیوار بھی دیوار اٹھائے ہوئے ہیں

پس دیوار بھی دیوار اٹھائے ہوئے ہیں
میرے ساتھی مرے لاشے کو چھپائے ہوئے ہیں


کس سے پوچھوں کہ مرے نام کی تختی ہے کہاں
میرے سینے میں تو ویرانے سمائے ہوئے ہیں


ان سے کہہ دو جو مکیں ہیں مرے گھر میں کہ مجھے
لوگ پھر بیچنے بازار میں لائے ہوئے ہیں


ظلمتیں ان کا اجارہ ہیں چلو یوں ہی سہی
ہم بھی لو دل کے چراغوں کی بڑھائے ہوئے ہیں


آسماں پر نہ ستارے نہ زمیں پر جگنو
کون پھر ماتھوں پہ کرنیں سی سجائے ہوئے ہیں


ہم تو پت جھڑ کی صدا ہیں ہمیں دیکھو نہ سنو
ہم کو سوچو کہ بہاروں کو سجائے ہوئے ہیں


ریت پر میں بھی گھروندا لیے بیٹھا ہوں متینؔ
وہ بھی ہر قطرۂ بارش میں سمائے ہوئے ہیں