سلسلہ چلتا رہے گا میرے دل کے بعد بھی

سلسلہ چلتا رہے گا میرے دل کے بعد بھی
جو نگر اجڑا ہے اب تھا یہ کبھی آباد بھی


اس قفس سے اس قدر اپنی طبیعت ہو گئی
چھوڑ کر جاؤں نہ ہرگز وہ کریں آزاد بھی


شب گزیدہ ہوں مجھے تاروں کی چھاؤں سے ہے ڈر
دل کا خوں کرنے چلے آئے ہیں تیرا زاد بھی


مدتوں سے کوئی سندیسہ نہ آنے کی خبر
اب انہیں شاید ہی آتی ہو ہماری یاد بھی


چاند بھی جوبن پہ اپنے رات بھی مستی بھری
دور کوئی چھیڑ دے بنسی پہ اک فریاد بھی


کر دیا حالات کی چکی نے بھی شیریںؔ کو چور
اور کچھ ہے خود غرض اس دور کا فرہادؔ بھی


نوجواں نے تلخئ حالات سے کی خود کشی
اور حسرتؔ آگ میں جھونکی ہیں سب اسناد بھی