سینے میں لیے جینے کے ارمان ہزاروں
سینے میں لیے جینے کے ارمان ہزاروں
مر جاتے ہیں ہر دن یہاں انسان ہزاروں
سب حسن کو معصوم سمجھتے ہیں جہاں میں
اور عشق کے ماتھے پہ ہیں بہتان ہزاروں
ہر زخم نے بخشی ہے جلا میرے جنوں کو
قاتل تری شمشیر کے احسان ہزاروں
لا حاصلی آخر کو ہے ہر چیز کا حاصل
ہر نفع کے پہلو میں ہیں نقصان ہزاروں
اک ضبط کی دیوار سنبھالے رہی مجھ کو
ہر چند اٹھے مجھ میں بھی طوفان ہزاروں
کچھ بات تو اس شوخ میں ایسی ہے یقیناً
پھرتے ہیں ہتھیلی پہ لئے جان ہزاروں
اے کاش مرے شعر پہ کہتا کوئی رخشاںؔ
قربان ترے شعر پر دیوان ہزاروں