جا نہیں سکتی جدھر جانے کو جی چاہتا ہے

جا نہیں سکتی جدھر جانے کو جی چاہتا ہے
ان دنوں یوں ہے کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے


گھر میں رہتی ہوں تو باہر کی ہوا کھینچتی ہے
گھر سے جب نکلوں تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے


میں نے کب باندھ کے رکھا ہے تمہیں پلو سے
تم چلے جاؤ اگر جانے کو جی چاہتا ہے


عہد تو تھا کہ نہ توڑوں گی میں حد فاصل
آج وعدے سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے


تیری آنکھوں میں تو رہتے ہوئے اک عمر ہوئی
اب ترے دل میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے


مدتوں بعد ترا قرب ملا ہے مجھ کو
آج ہر حد سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے


برق رفتار گزرتی ہوں وہیں سے رخشاںؔ
جس جگہ میرا ٹھہر جانے کو جی چاہتا ہے