شعور فطرت‌ انساں کا ہے بیدار ہو جانا

شعور فطرت‌ انساں کا ہے بیدار ہو جانا
کہیں مجبور بن جانا کہیں مختار ہو جانا


دکھا کر اک جھلک اس کا پس دیوار ہو جانا
یہی تو عاشقوں کے حق میں ہے تلوار ہو جانا


مرے سوئے ہوئے جذبات کا بیدار ہو جانا
کسی بے ہوش کا ہے خود بخود ہشیار ہو جانا


کروں میں خون کا دعویٰ تو پیش داور محشر
قیامت ہے مگر قاتل سے آنکھیں چار ہو جانا


شکست بے ستون و موج جوئے شیر شاہد ہیں
نہیں آسان راہ عشق کا ہموار ہو جانا


شرف ہے یہ فقط اک اشرف المخلوق انساں کا
فضائے عالم امکاں کی حد سے پار ہو جانا


بقول میرؔ یہ انسان پر تہمت تراشی ہے
کسی مجبور کا ممکن نہیں مختار ہو جانا


یوں ہی یاد خدا آ جاتی ہے مجھ کو کبھی شعلہؔ
کہ جیسے سوتے سوتے خواب سے بیدار ہو جانا