شوق کے ہاتھوں اے دل مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا

شوق کے ہاتھوں اے دل مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا
عشق تو رسوا ہو ہی چکا ہے حسن بھی کیا رسوا ہوگا


حسن کی بزم خاص میں جا کر اس سے زیادہ کیا ہوگا
کوئی نیا پیماں باندھیں گے کوئی نیا وعدہ ہوگا


چارہ گری سر آنکھوں پر اس چارہ گری سے کیا ہوگا
درد کہ اپنی آپ دوا ہے تم سے کیا اچھا ہوگا


واعظ سادہ لوح سے کہہ دو چھوڑے عقبیٰ کی باتیں
اس دنیا میں کیا رکھا ہے اس دنیا میں کیا ہوگا


تم بھی مجازؔ انسان ہو آخر لاکھ چھپاؤ عشق اپنا
یہ بھید مگر کھل جائے گا یہ راز مگر افشا ہوگا