شرم الحرم: پہلی قسط

"مسٹر مصطفےٰ فائق تمہارا گھر کہاں تھا؟"

مصطفےٰ فائق نے سامنے میز پر پڑے ہوئے نقشے کو سامنے سرکایا، انگلی رکھ کر کہا،" میرا گھر اس جگہ ہے۔"

"یہ تو سرحد پر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا گھر تو گیا۔"

مصطفےٰ فائق رکا، پھر دانت چبا کر بولا،" میرا گھر نہیں جا سکتا۔"

"نہیں جا سکتا۔" وہ ہنسا، "مگر وہ تو چلا گیا۔" رکا، پھر بولا، "تم عربوں نے بہت رسوائی کرائی ہے۔"

امین کا منہ غصّے سے سرخ ہوگیا، لکھتے لکھتے قلم رکھ دیا، اس کی طرف مخاطب ہوا، "رسوائی ہم سب ہی کی ہوئی ہے۔"

"ہم سب سے تمہاری کیا مراد ہے؟"

"مراد یہ ہے کہ میری بھی اور تمہاری بھی۔"

"میری بھی؟ میری کیوں؟ میں تو وہاں نہیں تھا۔" وہ رکا، پھر کہنے لگا،

" لوگ اس وقت بہت جذباتی ہو رہے ہیں، آج مجھے ایک آدمی ملا، جذباتی ہوکر کہنے لگا کہ

' مجھے نیند نہیں آتی، جب آنکھیں بند کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ میں بیت المقدس میں ہوں اور لڑ رہا ہوں۔'

بہرحال، مجھے نیند آتی ہے، جو وہاں تھے وہ اس کے ذمہ دار ہیں، میں تو وہاں نہیں تھا۔"

"تم تھے وہاں۔" امین غصّے سے بولا، "اور میں بھی تھا۔" پھر امین اٹھا اورخبریں کریڈ کرتی ہوئی مشین کی طرف چلا گیا۔ ادھر اس نے بیٹھے بیٹھے سامنے میز پر رکھے ہوئے ریڈیوسیٹ کا سوئچ گھمانا شروع کر دیا۔

"فلیش! "امین نے مشین پر جھکے جھکے اونچی آواز سے کہا۔ سوئچ گھماتے گھماتے ووہ رکا، مڑ کر امین کو دیکھنے لگا،" کیا خبر آئی؟"

"یرو شلم کا فال ہوگیا۔" امین مشین پر اسی طرح جھکا ہوا تھا۔

وہ پھر ریڈیو سیٹ پر جھک گیا، سوئچ گھمانے لگا۔" امین، عمان اسٹیشن نہیں مل رہا  ۔"

وہ پھر سوئچ گھمانے لگا، عربی، فارسی، انگریزی جیسے کوئی انگریزی میں دھواں دھار تقریر کر رہا ہے۔۔۔ جیسے کوئی عربی کا نغمہ ہو۔۔۔ کہاں کہاں کے اسٹیشن مل رہے ہیں، عمان نہیں ملتا، پھر اسے یونہی امین کی بات کا خیال آگیا، "میں بھی شامل تھا، مگر میں تو وہاں نہیں تھا۔"

سوئی ایک جگہ ٹک گئی، یہ کون سا اسٹیشن ہے۔ زبان تو عربی ہے، مگر کون کیا کہہ رہا ہے، وہ ریڈیو پر جھک گیا۔ سننے کی کوشش کرتے کرتے اس کا دھیان بھٹک گیا۔ سیٹ کے ڈائل پر بھٹکتی ہوئی سوئی۔

"فلیش! یرو شلم کا فال ہو گیا، یرو شلم، یر میاہ نبی ؑکا نوحہ، یرو شلم گر پڑا، یرو شلم گرپڑا، اے صبح کے شاندار فرزند تو کیوں کر آسمان سے گر پڑا، وہ جو خلائق سے بھری تھی بیوہ کی مانند ہوگئی، وہ جو قوموں کے درمیان بزرگ اور صوبوں کے بیچ، ملکہ تھی ،خراج گزار ہوگئی۔۔۔"

امین نے خبروں کا طومار میز پر بکھیر دیا اور کرسی پر مستعد ہوکر بیٹھ گیا اور خبروں کو الگ الگ پھاڑ کر ترتیب دینے لگا۔

اس نے سوئچ گھماتے گھماتے امین کو دیکھا،" کوئی اور خبر؟"

"نہیں۔"

وہ پھر ریڈیو پر جھک گیا، "یار عمان اسٹیشن کا پتہ نہیں چل رہا، مصطفےٰ فائق کہاں گیا، وہ ملائے گا۔"

"وہ چلا گیا۔" امین نے خبریں الگ الگ رکھتے ہوئے کہا۔

"کیوں؟"

"تمہاری بکواس سے تنگ آکر۔"

"میں نے غلط کہا تھا؟"

"مجھے غصّہ مت دلاؤ، مجھے بہت خبریں کرنی ہیں۔"

"تو آج قاہرہ ریڈیو کور(cover) نہیں ہوگا؟"

"کیسے ہوگا، اسے تم نے بیٹھنے ہی نہیں دیا۔"

امین کی بات کا جواب دیے بغیر وہ پھر ریڈیو پر جھک گیا، سوئچ گھماتے گھماتے اسے مصطفےٰ فائق کا خیال آیا، پچھلے تین دنوں سے وہ فلسطینی نوجوان کتنے جوش و خروش سے اس دفتر میں آرہا تھا، قاہرہ کے ریڈیو سے خبریں سن کر انہیں انگریزی میں قلم بند کرتا، ایک ایک خبر سمجھاتا اور حوالے کرکے رات کے ایک ڈیڑھ بجے جاتا، آج وہ کتنی خاموشی سے چلا گیا، قاہرہ ریڈیو سنے بغیر۔

اس نے سوئچ کو ایک مرتبہ پھر گھمایا، سوئی مختلف ہندسوں کو عبور کرتی ہوئی مختلف ہندسوں تک گئی،" دنیا کے کتنے اسٹیشن اس ننھی سی سوئی کی زد میں ہیں مگر عمان کہاں ہے؟ میں وہاں کہاں تھا؟ کیسے؟ "اسے امین کی بات پھر یاد آ گئی، جیسے ہلکی سی پھانس چبھی تھی، پھر لگا کہ نکل آئی، مگر وہ تو چبھ رہی تھی، "میں وہاں نہیں تھا۔" اس نے قطعی انداز میں سوچا اور پھانس نکال کر پھینک دی، "فلیش۔۔۔ یرو شلم کا فال ہو گیا۔ فلیش بیک۔۔۔ یرو شلم گر پڑا، یرو شلم گرپڑا، یرو شلم، یر میاہ نبؑی کا نوحہ۔"

"دیوار گریہ، سنیپ۔۔۔ دیوار گریہ تنگ گلیوں میں گھری ہوئی تھی، اب وہاں کشادہ میدان ہے۔ دیوار گریہ، سیلاب گریہ،

سیلاب گریہ در پئے دیوار ودر ہے آج، "

اس کی وردی خون پسینے اورمٹی میں سنی ہوئی تھی، جسم لہو لہان تھا، چہرہ جھلس گیا تھا ۔

 اس نے آنکھیں کھولیں۔ پھٹی پھٹی آنکھوں والے سفید ریش اعرابی کو دیکھا، سرخ پٹکے والے آدمی کو دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ سفید ریش اعرابی اس کی بالیں پر بیٹھ گیا اور بولا

" اے بہادر، ہمارے ماں باپ تجھ پر   فدا ہوں، اٹھ اور جو کچھ ہوا ہے اسے بیان کر۔ "

اس نے کراہتے ہوئے جواب دیا کہ، "جو کچھ ہوا ہے اسے کیوں کر بیان کروں کہ مَیں زندہ نہیں ہوں۔"

"ہاں! ہم نے دیکھا اور ہم نے گواہی دی کہ تُو زندہ ہے۔"

تب اس نے آنکھیں کھولیں، اٹھ بیٹھا اور یوں گویا ہوا کہ،

" یا  نباءالعرب ، اگر تمہاری گواہی سچی ہے اور اگر میں زندہ ہوں اور اگر تم زندہ ہو،

 تو سنو اور جانو کہ جو مارے گئے، وہ اچھے رہے ،بہ نسبت ان کے،  جو زندہ رہے اور رسوا ہوئے ۔

میں جب چلا تھا تو زندہ تھا، ہمارے دلوں نے یوں جنبش کھائی جیسے جنگل  کے درخت آندھی سے جنبش کھاتے ہیں۔ اور ہم آدھے یروشلم سے نکلے اور آدھے یروشلم میں جا  داخل ہوئے، اور ہم نے منادی کی کہ آج یروشلم، یرو شلم سے مل گیا۔

ہمارے عقب میں فصیل تھی اور سامنےغاصب  دشمن کی دیوار تھی۔  معرکہ سخت تھا، اس ہنگام میں ایک  انسان  ٹیلے پر چڑھا اور پکارا کہ

'اے غافلو!عمان ڈھے گیا'، مَیں نے نعرہ مارا کہ' میں قائم ہوں'، پھر اس نے صدا دی کہ' دمشق ڈھے گیا'، مَیں چِلاّیا کہ' میں قائم ہوں، 'پھر اس نے نعرہ مارا 'قاہرہ ڈھےگیا'  ، مَیں پکارا کہ مَیں مگر قائم ہوں ، پھر اس  نے کہا کہ 'اے غافلو ،  بیت المقدس ڈھے گیا'، تب مَیں نے زاری کی اور کہا کہ' میں ڈھے گیا ہوں 'اور میں نے اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھا کہ بیت المقدس ڈھے رہا ہے اور آدمی ایسے بکھر رہے ہیں جیسے تیز جھکڑ میں بھوسا بکھرتا ہے۔"

متعلقہ عنوانات