شرم الحرم: دوسری قسط

" یا  نباءالعرب ، اگر تمہاری گواہی سچی ہے اور اگر مَیں زندہ ہوں اور اگر تم زندہ ہو،

 تو سنو اور جانو کہ جو مارے گئے، وہ اچھے رہے ،بہ نسبت ان کے،  جو زندہ رہے اور رسوا ہوئے ۔

مَیں جب چلا تھا تو زندہ تھا، ہمارے دلوں نے یوں جنبش کھائی جیسے جنگل  کے درخت آندھی سے جنبش کھاتے ہیں۔ اور ہم آدھے یروشلم سے نکلے اور آدھے یروشلم میں جا  داخل ہوئے، اور ہم نے منادی کی کہ آج یروشلم، یرو شلم سے مل گیا۔ ہمارے عقب میں فصیل تھی اور سامنےغاصب  دشمن کی دیوار تھی۔  معرکہ سخت تھا، اس ہنگام میں ایک  انسان  ٹیلے پر چڑھا اور پکارا کہ

'اے غافلو!عمان ڈھے گیا'، مَیں نے نعرہ مارا کہ' میں قائم ہوں'، پھر اس نے صدا دی کہ' دمشق ڈھے گیا'، مَیں چِلاّیا کہ' میں قائم ہوں، 'پھر اس نے نعرہ مارا 'قاہرہ ڈھےگیا'  ، مَیں پکارا کہ مَیں مگر قائم ہوں ، پھر اس  نے کہا کہ 'اے غافلو ،  بیت المقدس ڈھے گیا'، تب مَیں نے زاری کی اور کہا کہ' میں ڈھے گیا ہوں 'اور میں نے اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھا کہ بیت المقدس ڈھے رہا ہے اور آدمی ایسے بکھر رہے ہیں جیسے تیز جھکڑ میں بھوسا بکھرتا ہے۔"

سفید ریش اعرابی نے یہ سن کر گریہ کیا، عمامہ اتار کر خاک پر پھینکا اور پکارا۔

"القارعۃ ۔ مالقارعہ؟  وما ادراکَ مالقارعہ؟ یوم یکوُ نُ الناس کالفراشِ المبثوث۔"

جھلسے چہرے، خونم خون وردی والے سپاہی کی آنکھیں خشک تھیں اور وہ یوں گویا ہوا،  کہ" اے بزرگ ،وہی وہ دن تھا جس کی تیرے اور میرے رب نے خبر دی تھی، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آدمی ایسے ہوگئے تھے جیسے پھیلے ہوئے ،ٹھنڈے ہوجانے والے پتنگے ہوتے ہیں۔ جوان سبزیوں کی مانند کاٹے گئے۔ بچّے مٹی کے بنے پتلے کوزوں کی مثال توڑے گئے اور میں نے دیکھا کہ بیت المقدس کی کنواریوں نے بال کھولے ہیں اور سروں کو زمین تک جھکاتی ہیں، تب میں درد سے پکارا کہ اے بیت المقدس کی بیٹی، تیری کنواریاں رسوا ہوئیں، تُو کہاں ہے، اور میں نے دیکھا کہ مقدس دروازہ گرا پڑا ہے۔"

سفید ریش بزرگ ایسے ہلا جیسے زلزلہ میں اونچا گھر ہلتا ہے، بولا،" اور تُو یہ خبر سنانے کے لیے زندہ رہا؟ "

جھلسے چہرے خونم خون وردی والے سپاہی نے کہا، "جو مارے گئے وہ اچھے رہے بہ نسبت ان کے جو زندہ رہے اور ذلیل ہوئے اور مَیں زندہ کہاں ہوں ، مَیں تو  مر  گیا۔"

سفید ریش اعرابی نے افسوس سے اسے دیکھااور کہا کہ "بے شک یہ آدمی مر گیا تھا۔ "سرخ پٹکے والے آدمی نے ایک آہ سرد بھری اور سوال کیا کہ" کیا ہم زندہ ہیں۔"

 اس پر سفید ریش اعرابی نے سرخ پٹکے والے آدمی کو اور سرخ پٹکے والے آدمی نےسفید ریش اعرابی کو شک بھری نظروں سے دیکھا، دیکھتے رہے، ایک دوسرے کو تکتے رہے، پھر وہ دونوں بیک وقت یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ" چلو کسی سے چل کر پوچھیں کہ ہم زندہ ہیں یا مر چکے  ہیں۔"

چلتے چلتے وہ ٹھٹکے،" ہم کس طرف جاتے ہیں؟"

"تاشقند کی طرف۔

تاشقند کیا؟ تاشقند کیا؟

تاشقند، سمر قند، زہر خند، گو سفند۔"

دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پوچھا کہ" ہمارے درمیان یہ تیسرا کون ہے اور کیا زبان بولتا ہے۔"

"میں کون ہوں۔" مَیں سوچ میں پڑ گیا۔

"اے اجنبی، کیا تو ہم میں سے نہیں ہے؟"

"مَیں ؟ مَیں کون ہوں؟ کیا مَیں ان میں سے نہیں ہوں، مَیں کن میں سے ہوں؟ کہاں ہوں؟ مگر مَیں تو وہاں نہیں تھا۔"

۔۔۔۔۔

" فلیش!" وہ امین کی آواز پر چونک پڑا، امین پھر کریڈ پر جا کھڑا ہوا تھا اور کریڈ ہوتی ہوتی خبروں کو پڑھ رہا تھا۔ "فلیش، فلیش، فلیش۔"

"کیا فلیش ہے؟" اس نے مڑ کر امین کو دیکھا۔

"تل ابیب۔ موثق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جنرل دایاں نے دیوار گریہ کو جا کر دیکھا، وہاں پہنچ کر اس نے اور اسرائیلی فوج نے گریہ کیا(اے ایف پی)"

"تو گویا شہر پر ان کا مکمل قبضہ ہے۔"

"ہاں۔"امین خبروں کا ایک نیا پلندہ لے کر آیا، میز پہ دے پٹکا اور کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کہنے لگا، "یار، لوگ کہتے ہیں کہ موشے دایان اصل موسے دجال ہے۔ "وہ ہنس پڑا۔

"اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔"

"کچھ نہیں، اچھا بتاؤ شرم الشیخ کی اور کوئی خبر آئی۔"

"شرم الشیخ کی خبر۔" امین کی آواز سے گرمی رخصت ہو گئی تھی۔" اب کیا  خبرآئے گی، آچکی۔

شرم الشیخ کی خبر، آچکی، اور کوئی خبر، نہیں۔"اس کے ذہن کی سوئی پھر حرکت میں تھی،" شرم الشیخ، دیوار گریہ، سیلاب گریہ، مگر عرب کہاں بیٹھ کر روئیں گے،

 صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں،

 اور مَیں؟ کیا مَیں وہاں تھا۔۔۔؟ مَیں اور وہ۔۔۔"

۔۔۔۔۔

"اے ناقہ سوار تُو کس سمت سے آتا ہے؟"

"مَیں دمشق کی سمت سے آتا ہوں۔"

"اے دمشق کی سمت سے آنے والے، شرم الشیخ کی کیا خبر ہے۔ "

ناقہ سوار نے یہ سن کر چھاؤں میں بیٹھے ہوئے ان دو مردانِ صحرا کو بصد غور دیکھا، اپنا ناقہ روک کر کجاوے سے اترا، ناقہ کھجور کے تنے سے باندھا اور مردانِ صحرا کے قریب گھاس پر آ بیٹھا، آہ ِسرد کھینچی اور کہا،

" شرم الشیخ کی خبر مت پوچھو۔"

پہلے صحرائی نے یہ کلام سن کر سر جھکا یا اور کہا" شرم الشرف۔" دوسرا صحرائی غصّے سے دانت چباتے ہوئے بولا،" شرم العرب۔ "مَیں نے گریہ کیا اور کہا،" شرم الحرم۔"

 

"شرم الحرم؟" ناقہ سوار اور وہ دونوں مردانِ صحرا چونکے، "یہ شخص کون ہے؟ کیا وہ ہم میں سے ہے؟"

"مَیں کون ہوں؟ کیا مَیں ان میں سے ہوں۔"

پھر ان کے سر جھکتے چلے گئے، جھکتے چلے گئے حتیٰ کہ ان کی پیشانیاں خاک سے مس ہونے لگیں،

"شرم الحرم۔"

پھرپہلے صحرائی نے خاک سے سر اٹھایا اور دوسرے صحرائی کو خطاب کرکے کہا کہ "اے اپنے باپ کے بیٹے، تونے اپنے باپ سے کیا سنا؟" دوسرے صحرائی نے خاک سے سر اٹھایا، پھر وہ دو زانو ہو بیٹھا اور یوں گویا ہوا،" یا نباء الدین، مَیں نے اپنے باپ سے اور میرے باپ نے اپنے باپ سے سنا اور میرے باپ کے باپ نے کہا کہ سنا ہم نے ابولفضل زیتون فروش سے کہ زیتون اس نے ہمیشہ تولہ تولہ رتی رتی ٹھیک وزن کیا اور بیان کیا ابوالفضل زیتون فروش سے حسن بن احمد بن علی عسکری خیاط نے کہ کھونپ بھرنے میں کمال مہارت رکھتا تھا۔ اور خبر دی حسن بن احمد بن علی عسکری خیاط کو شیخ صدوق نے کہ چار ہزار پانچ سو اکہتر احادیث انہیں معہ حوالہ جات حفظ تھیں اور توریت پر انہیں عبور کامل تھا۔ انہوں نے روایت یوں نقل کی کہ" وہ شخص قبلہ دان سے اٹھے گا اور یروشلم کے دروازوں پر ظاہر ہوگا، اس کی ایک آنکھ خراب ہوگی اور ہرا کپڑا اس پر پڑا ہوگا، اور بیت المقدس اس کے ہاتھوں بے حرمت ہوگا، وہ اونچے گدھے پر سوار ہوگا اور حرم کے دروازوں تک پہنچے گا۔"

"شرم الحرم۔" ان کے سر پھر جھکتے چلے گئے حتیٰ کہ پیشانیاں خاک سے جا لگیں۔

"تب شام  میں دمشق کی مسجد پر  ایک  خاص  فرستادہ  اترے گا اور ارض لُدتک اس کا تعاقب کرے گا۔"

ناقہ سوار نے خاک سے سر اٹھا کر کہا،" دمشق کی مسجد  پر جو اترے گا، وہ کہاں ہے؟"

دوسرے مرد صحرا نے خاک سے سر اٹھایا، کھڑا ہوا، پکارا، اے ارضِ شام سے اٹھنے والے مردِ دلیر ،تُو کہاں ہے۔

متعلقہ عنوانات