شرم الحرم: آخری قسط

یہ تم نے کون سا  ریڈیو اسٹیشن لگا رکھا ہے؟

کیا؟ اس نے چونک کر کہا۔

میں پوچھ رہا ہوں۔ امین بولا، یہ تم نے کون سا اسٹیشن لگا رکھا ہے۔

یہ اسے پتہ نہیں تھا کہ کون سا اسٹیشن ہے، بہر حال ادھر ہی کا کوئی اسٹیشن تھا۔ کیوں  کہ پروگرام عربی میں ہو رہا تھا۔ پتہ نہیں کون سا اسٹیشن ہے، کیا خبر ہے عمان ہی ہو یا شاید قاہرہ ہو یا شاید بغداد ہو۔ مصطفےٰ فائق ہوتا تو بتاتا کہ کون سا اسٹیشن ہے اور کیا پروگرام ہو رہا ہے۔

میں عربی نہیں جانتا۔ امین بولا، مگرجو کچھ کہا جا رہا ہے سب میری سمجھ میں آ رہا ہے۔

اور میری سمجھ میں بھی آرہا ہے، اس نے دل میں کہا، پھر سوئچ گھمایا ۔ پھر سوئی حرکت میں تھی، کون سا اسٹیشن کہاں ہے، بغداد، عمان، قاہرہ، دمشق الجزیرہ۔ الجزیرہ؟ یہ الجزیرہ ہے؟ بھرے ہوئے مجمع میں سے ایک شخص چلاّیا، "عبد الناصر کی ماں عبد الناصر کی موت پر روئے ، کیا وہ ہم سے تلواریں نیام میں ڈالنے کو کہے گا"۔ تب صاحبِ ریش اعرابی نے زاری کی اور کہا کہ

"ہم سب عربوں کی مائیں ہمارے سب کے سوگ میں بیٹھیں کہ تلواریں ہماری کند ہوگئیں اور ہم نے انہیں اپنی   نیاموں میں فقط رقص کے لیے سنبھال لیا۔"

"عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے؟" چِلانے والے نے چِلا کر پوچھا۔

 

"عرب کا بہادر بیٹا؟ "سب ٹھٹک گئے، متعجب ہوئے، "ہاں عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے"، پھر ایک آواز ہو کر چلائے، "عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے؟ عرب کے بہادر بیٹے کو باہر لاؤ۔"

تب جھلسے چہرے خونم خوں وردی والا سپاہی مجمع کو چیرتا ہوا آگے آیا، گویا ہوا،

" ایہا الناس، عرب کے بہادر بیٹے میدانوں میں سوتے ہیں، جو مارے گئے، وہ اچھے رہے بہ نسبت ان کے جو زندہ رہے اورذلیل ہوئے اور عرب کے بہادر بیٹے بلند و بالا کھجوروں کی مانند میدانوں میں پڑے ہیں، صحرا کی ہواؤں نے ان پر بین کیے، اور گرد کی چادر میں ان کی تکفین کی۔"

"اے خون میں نہائے ہوئے غازی، ہمارے ماں باپ تجھ پر سے فدا ہوں کچھ بتا کہ عرب کے بہادروں پر کیا گزری۔"

 

"اے لوگوں، میں تمہیں کیا بتاؤں اور کیسے بتاؤں کہ میں تو زندہ ہی نہیں ہوں۔"

 

"یہ شخص زندہ نہیں ہے؟ عجب ثم العجب۔ تعجب"  (سرگوشیاں۔)

ایک آواز، "اے خون میں نہائے ہوئے عرب کے فرزند، تُو کیوں زندہ نہیں ہے؟"

 

"ایہا الناس، مَیں زندہ تھا مگر زندہ نہیں رہا، مَیں زندہ نہیں رہا۔ مَیں زندہ تھا،  جب مَیں بگولے کی مثال اٹھا اور آندھی کی طرح یروشلم کو عبور کرکے یروشلم میں گیا، مَیں نے عمان، دمشق اور قاہرہ کے ڈھے جانے کی خبریں سنیں اور زندہ رہا، پھر مَیں نے بیت المقدس کے ڈھے جانے کی منادی سنی اور ڈھینے لگا، میں نے بیت المقدس کے گلی کوچوں میں عرب جوانوں کو یوں پڑے دیکھا جیسے صبح ہو گئی ہے۔ اور ٹھنڈے پتنگے پھیلے بکھرے پڑے ہیں، میں نے عرب جوانوں کو پتنگوں کی مثال پھیلے دیکھا اور زندہ رہا، مَیں نے عرب کی کنواریوں کو لیر لیر لباس میں بال کھولے زمین پر جھکتے دیکھا اور مَیں زندہ رہا، اور مَیں پکارا کہ اے بیت المقدس کی بیٹی، کمر پر ٹاٹ باندھ اور بین کر کہ  تیرے فرزند خاک و خوں میں غلطاں ہوئے اور تیری کنواریاں گلی گلی رسوا ہوئیں، اس آن مَیں نے دیکھا کہ بیت المقدس کی بیٹی بے حرمت ہوتی ہے، تب میں نے اپنی گنہگار آنکھیں موند لیں، مَیں ڈھے گیا اور مر گیا۔"

 

جھلسے ہوئے چہرے خونم خون وردی والے سپاہی نے آنکھیں موندیں، پھر وہ ڈھے گیا اور مر گیا، ایک مرد  اعرابی نے روتے روتے اپنا عمامہ زمین پر پھینکا اور اپنے گیسو بکھیرتے ہوئے چلایا کہ "عرب کے سب صحراؤں کی خاک میرے سر میں، عرب کی غیرت مر گئی۔ "

دوسرا درد سے بولا کہ" اے کاش میرا سر پانی ہوتا اور میری آنکھیں آنسوؤں کا سوتا ہوتیں کہ تا عمر روتا رہتا اور آنکھ کی پتلی کو سستانے نہ دیتا۔"

 سفید ریش اعرابی نے آنسوؤں میں تر ہوتی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور پھر وہی  منادی کرنے لگا، "القارعۃ مالقارعہ و ما ادراکَ مالقارعہ، یوم یکونُ الناس کا الفراش المبثوث۔"

 

اس آن ایک بر بربگولے کی مثال اٹھا اور ٹیلے پر چڑھ کر قبضے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نعرہ زن ہوا کہ "قسم ہے سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کی، اور قسم ہے ان کے سموں کی جو پتھروں سے ٹکراتے ہیں اور چنگاریاں اڑاتے ہیں اور قسم ہے اس دن کی جب حاملہ  اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور جب پہاڑ دھنی ہوئی روئی کے مثال اڑتے پھریں گے۔ اور جب دریاؤں اور سمندروں میں آگ لگ جائے گی کہ میری تیغ نیام سے نکل آئی ہےاور وہ نیام میں نہیں جائے گی۔"

 

یہ کلام کر کے اس نے اونچے ٹیلے پر آگ روشن کی اور نیام کو دو ٹکڑے کرکے اس میں جھونک دیا، یہ دیکھ کر سب نے اپنی اپنی تلواریں نیاموں سے نکالیں اور نیام توڑ کر الاؤ میں جھونک دیے۔

"یار ذرا ریڈیو کی آواز  آہستہ کرو۔"

"کیا؟" وہ چونکا، سوئی اپنے اسٹیشن سے ہٹ گئی تھی۔

"میرا مطلب ہے کہ بہت اونچی آواز ہے۔" امین کہنے لگا،" ذرا آہستہ کرو۔"

اس نے آہستہ کرتے کرتے بند کر دیا۔

"کیوں؟ "امین نے اس کی طرف دیکھا۔

"یار کچھ سمجھ میں نہیں آرہا، نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ کون سا اسٹیشن ہے، نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے۔۔۔ کوئی اور خبر؟"

"کوئی نہیں۔"

"یار اس وقت مصطفےٰ فائق کہاں ہوگا۔"

"ہوسٹل میں ہوگا ،اور کہاں ہوگا؟"

"میں اس کے پاس جانا چاہتا ہوں۔"

"اس وقت؟"

"ہاں اسی  وقت۔"

"پتہ ہے گھڑی پہ کیا بجا ہے؟"

"ہاں پتہ ہے، تم چل رہے ہو؟"

"مجھے کاپی بھیجنی ہے۔"

"تو پھر  مَیں چلا۔"

وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دفتر سے نکل آیا، مگر وہ ہنوز دفتر میں تھا، خبریں  کرتی ہوئی مشینوں کا شور، ریڈیو کی آوازیں، اس کے ذہن کی کیفیت بالکل ایسی تھی جیسےکسی  ریڈیو سیٹ کی سوئی ہو، اور مختلف ہندسوں، مختلف میٹروں پر گردش کر رہی ہو، اس نے اپنے آپ کو سمیٹا اور یکسوئی کے ساتھ اپنے آپ کو اطلاع دی کہ" مَیں مصطفےٰ فائق کے پاس جا رہا ہوں، اب رات کا ایک بجا ہے، میرا رخ مصطفےٰ فائق کے ہوسٹل کی طرف ہے۔ مصطفےٰ فائق اس وقت کہاں ہوگا، میں اس وقت کہاں ہوں، میں مصطفےٰ فائق سے ملنا چاہتا ہوں، اس سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔"

"مسٹر مصطفےٰ فائق، ہمارے شہر کا ایک آدمی آج مجھ سے ملا تھا، تمہیں پتہ ہے کہ وہ کیا کہہ رہا تھا کہ مجھے ان دنوں نیند نہیں آتی، جب آنکھیں بند کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ مَیں بیت المقدس میں ہوں اور لڑ رہا ہوں۔"

"اچھا؟"

"ہاں، اور تمہیں معلوم ہے کہ وہ آدمی کون تھا؟"

"کون تھا؟"

"مجھے لگتا ہے کہ وہ آدمی جو مجھ سے ملا تھا وہ مَیں خود تھا۔"

وہ آدمی جو مجھ سے ملا تھا، مَیں خود تھا، مصطفےٰ فائق رات کی اس گھڑی میں کہاں ہوگا، مَیں رات کی اس گھڑی میں کہاں ہوں، عمان، بغداد، دمشق، الجزیرہ کون سا شہر کہاں ہے؟ کون اس وقت کس شہر میں ہے، بیت المقدس میں کون ہے؟ بیت المقدس میں تو مَیں ہوں، مصطفےٰ فائق ہے، سب ہیں، کوئی نہیں ہے، بچّے کمہار کے بنائے پتلے کوزوں کی طرح توڑے گئے، کنواریاں کنوئیں میں گرتے ہوئے ڈول کی رسی کی مانند لرزتی ہیں۔ ان کی پوشاکیں لیر لیر ہیں، بال کھلے ہیں، انہیں تو آفتاب نے بھی کھلے سر نہیں دیکھا تھا۔

کنواریاں اپنے کھلے بالوں کے ساتھ زمین پر جھکی ہوئی جیسے وہ زمین میں سما جائیں گی، وہ دن جب آدمی پھیلے ہوئے پتنگوں کی مانند ہو جائیں گے۔"

 ہمارے درمیان یہ تیسرا کون ہے۔۔۔ مَیں کون ہوں؟"

 سفید ریش اعرابی نے پوچھا کہ

" اے شخص کیا تو ہم میں سے ہے؟"

مَیں نے کہا، "بے شک مَیں تم ہی میں سے ہوں۔"

"پھر بیان کر کہ بیت المقدس پر کیا گزری۔"

"میں نے زاری کی اور کہا کہ میں اس کے سوا کچھ نہیں جنتا کہ بیت المقدس کی بیٹی بے حرمت ہوگئی، شرم العرب۔ شرم العجم۔ شرم الحرم۔"

متعلقہ عنوانات