شہیدوں کو سلام
ساری مصیبتوں کو جو ہنس ہنس کے سہہ گئے
دار فنا میں صرف وہی زندہ رہ گئے
وہ جوش تھا کہ پھاند گئے کوہسار بھی
وہ عزم تھا کہ اٹھے تو تا مہر و مہ گئے
سینوں میں صبر و ضبط کی وہ تیز آگ تھی
ظلم و ستم کے کوہ گراں گل کے بہہ گئے
تاریکیوں کو مطلع انوار کہہ گئے
ظلم و ستم کو طالع بیدار کہہ گئے
تا عمر یوں تو مہر بہ لب ہی رہے مگر
افسانۂ بلندیٔ کردار کہہ گئے
آئی کوئی بلا تو لگایا اسے گلے
ٹوٹا کوئی ستم تو اسے پیار کہہ گئے
کڑکی کماں تو اس کو کیا نغمۂ حیات
خنجر کبھی چبھا تو اسے خار کہہ گئے
روکے گئے تو اور بڑھی قوت عمل
زخمی ہوئے تو جسم کو گلنار کہہ گئے
طوق و رسن کو نام دیا زلف دوست کا
زنداں کو سایۂ مژۂ یار کہہ گئے
حسن حیات کے وہ ادا آشنا کہ جو
ہر قتل گہہ کو مصر کا بازار کہہ گئے
کس آن بان کے وہ شہیدان قوم تھے
جو تیغ کو بھی ابروئے خم دار کہہ گئے
یادش بخیر خاک وطن تیری گود میں
کیا لوگ تھے جو دار کو دل دار کہہ گئے