بیاد شمیمؔ کرہانی
اف یہ پچھلے پہر کا سناٹا
ذہن پر ڈنک مارتا جائے
ایک اک زخم ابھارتا جائے
بھولا بسرا ہوا سا اک چہرہ
میرے اشکوں میں ڈوب کر نکلا
اور میرے لرزتے ہونٹوں پر
سج گیا ایک آہ کی صورت
ایسی لمبی کراہ کی صورت
چیر کر دل کو جو نکلتی ہے
بے ریائی خلوص لطف و کرم
خوش دلی مہربانیاں شفقت
حسن شبنم مزاجیاں نکہت
زندگی کا سلیقۂ مثبت
آگہی عقل علمیت تہذیب
دل نشیں دور بینی دیدہ وری
شعریت کا شعور خوش نظری
رنگ آتا ہے رنگ جاتا ہے
اور وہ بھولا بسرا سا چہرا
چوٹ دل پر مرے لگاتا ہے
بڑھتی جاتی ہے زخموں کی تعداد
بڑھتا جاتا ہے درد سینے کا
حوصلہ اب نہیں ہے جینے کا
یاد ماضی عذاب ہے یا رب