شب میں جو زلف رخ پہ بکھر کر سمٹ گئی
شب میں جو زلف رخ پہ بکھر کر سمٹ گئی
وہ نور بن کے دن کے اجالے میں بٹ گئی
اتنی حسین آئی نہ آئے گی عمر بھر
اک تیرے انتظار میں جو عمر کٹ گئی
کھویا ہوا تھا تیرے تصور میں جس گھڑی
تاریکی جتنی ذہن پہ چھائی تھی چھٹ گئی
ہونٹوں پہ رقص کرتا رہا نام جب ترا
ہر کامیابی بڑھ کے قدم سے لپٹ گئی
سمجھوں تو کیسے سمجھوں میں رفتار زندگی
تیزی سے بڑھتی بڑھتی رہی پھر سمٹ گئی
آنکھوں میں میری طور کا منظر تھا اے شفیقؔ
جب عاشقی نقاب الٹ کر لپٹ گئی