رہ گزر شیشے کی ہے نہ اس کا در شیشے کا ہے

رہ گزر شیشے کی ہے نہ اس کا در شیشے کا ہے
در حقیقت اپنا ہی رخت سفر شیشے کا ہے


چلتا پھرتا بولتا سنتا سمجھتا ہے مگر
لگنے کو کچھ بھی لگے ہر اک بشر شیشے کا ہے


آدم و ابلیس کا کردار دیتا ہے سبق
خیر ہے فولاد کی مانند شر شیشے کا ہے


بے سبب ٹکراؤ مت تہذیب کے رسم و رواج
کچھ ادھر شیشے کا ہے تو کچھ ادھر شیشے کا ہے


وقت کا پتھر تو چکنا چور کر دے گا اسے
غور سے دیکھو ذرا ظالم کا گھر شیشے کا ہے


تجھ سے پہلے ٹوٹ کر بکھرے یہاں کتنے شفیقؔ
کیا نہیں معلوم شہرت کا ثمر شیشے کا ہے