شاید وہ پڑھ سکیں گے نہ لکھا ہوا تمام

شاید وہ پڑھ سکیں گے نہ لکھا ہوا تمام
خط میرا آنسوؤں میں ہے بھیگا ہوا تمام


روداد درد عشق سنانے چلا تھا میں
تم سے ملی نگاہ تو قصہ ہوا تمام


دل میرا حسرتوں کی ہے دنیا لئے ہوئے
آنکھوں میں سیل اشک ہے ٹھہرا ہوا تمام


اونچی عمارتیں ہیں مگر پستہ قد ہیں لوگ
یہ تیرا شہر میرا ہے دیکھا ہوا تمام


تیور کچھ اب کے اور ہیں فصل بہار کے
غنچہ کوئی کھلا بھی تو بکھرا ہوا تمام


اب یہ چمن بھی دوستو کچھ غیر سا لگے
ہر چند اپنے خوں سے ہے سینچا ہوا تمام


ان مہ رخوں کے عشق میں افسرؔ مرا کلام
آتا ہے بام عرش سے نکھرا ہوا تمام