ہزاروں سر کسی کے پاؤں پر دیکھے نہیں جاتے
ہزاروں سر کسی کے پاؤں پر دیکھے نہیں جاتے
نظام زر کے یہ زیر و زبر دیکھے نہیں جاتے
احاطے یہ رواجوں کے یہ دیواریں سماجوں کی
دلوں کے شہر میں پتھر کے گھر دیکھے نہیں جاتے
الٹ دو ان نقابوں کو یہ پردے چاک کر ڈالو
گھٹاؤں کے لپیٹے میں قمر دیکھے نہیں جاتے
مسرت جن سے برگشتہ اذیت جان کا حصہ
یہ لاشے زندگی کے دوش پر دیکھے نہیں جاتے
کسی کا ذکر ہی چھیڑو کہ دل کے داغ روشن ہوں
یہ منہ کالے اندھیرے رات بھر دیکھے نہیں جاتے
لفافہ صرف بدلا ہے ابھی مضموں نہیں بدلا
وہی رہبر بہ انداز دگر دیکھے نہیں جاتے
نظر سے جب نظر ملتی ہے عالم اور ہوتا ہے
اتر آتے ہیں وہ دل میں مگر دیکھے نہیں جاتے
کسی کا دل ہتھیلی پر تمہاری کیا قیامت ہے
یہ ٹکڑے کانچ کے یوں آنچ پر دیکھے نہیں جاتے
کبھی آنکھیں کبھی ہم دل کبھی جاں تک بچھاتے ہیں
گلوں کے پاؤں افسرؔ خاک پر دیکھے نہیں جاتے