خیالوں میں تم کو بسانے لگا ہوں

خیالوں میں تم کو بسانے لگا ہوں
میں خود سے بہت دور جانے لگا ہوں


خوشی ایک چاہی تو انجام یہ ہے
کہ خوشیوں سے دامن بچانے لگا ہوں


گئے جب سے تم دور نظروں سے میری
تمہیں دل کے نزدیک پانے لگا ہوں


کہیں پھر نہ دیکھے وہ نظر کرم سے
سکوں بے رخی میں جو پانے لگا ہوں


تفکر ہے چہرے پہ پھر باغباں کے
کہ پھر سے نشیمن بنانے لگا ہوں


نئے غم نئی آرزوئیں ہیں افسرؔ
نئی اک غزل گنگنانے لگا ہوں