سوال اب بھی وہی ہے جناب کیسے ہوا
سوال اب بھی وہی ہے جناب کیسے ہوا
کسی کی خوشبو سے بہتر گلاب کیسے ہوا
تمام رات میں خود سے سوال کرتی رہی
جسے چھوا ہو حقیقت میں خواب کیسے ہوا
ابھی بقایا ہے اک قسط مسکراہٹ کی
ابھی غموں کا برابر حساب کیسے ہوا
چلو یہ مان لیا ہم تو جانتے ہی نہ تھے
تمہیں تو سارا پتا تھا سراب کیسے ہوا
مری سمجھ میں ابھی تک یہ راز آ نہ سکا
بجھا چراغ بھلا آفتاب کیسے ہوا
مزہ تو جب تھا کے رہتے تمہارے دل میں بھی
نظر میں رہنا فقط انتخاب کیسے ہوا