ستی

لوگ ہر صبح
مجھے بتاتے ہیں
میں بیوہ ہو چکی ہوں
اور میں ہر شام
دھان کے کھیت جیسی
وہ ساڑی اوڑھ لیتی ہوں
جس سے ابھرتے میرے
سنہری بازوؤں کو
وہ گندم کی بالیاں کہتا تھا
تب
محبت خوشبو بن کر
دالان اور کمروں میں پھیل جاتی ہے
اور پیانو کو ان دیکھی
متحرک انگلیاں گدگداتی ہیں
اور میں آتش دان کے پاس
بیٹھ کر کہانی کا سوئیٹر بنتی ہوں
مشعلوں کی لو لمبی ہوتی جاتی ہے
اور طویل سائے دیواروں پر رقصاں رہتے ہیں
ہوا مہین پردوں کو
بازوؤں میں لے کر
اٹھکھیلیاں کرتی ہے
چاند سہمے بچے کی طرح
دریچوں اور درزوں سے جھانکتا ہے
صبح دم
جب ستارے روشنی کے سمندر میں
خودکشی کر لیتے ہیں
تو
وہ تصویر میں واپس چلا جاتا ہے
اور میں
پھر سے ستی ہو جاتی ہوں