خیال کی بنجر زمین
لفظ
کب سے میرے ذہن کے
سوراخ سے جھانک رہا ہے
جہاں ظلمت قرنوں سے
راج کرتی ہے
اور خیال کے جالے لٹکے پڑے ہیں
اوہام کی چمگادڑیں دیواروں سے چپکی ہوئی ہیں
سوچ کے پانی پر کائی جمی ہے
میرے ذہن کے دریچوں میں
کوئی ایسی درز بھی نہیں
جہاں سے ہوا داخل ہو کر
مایوسی کی حبس کو چاٹ لے
اور کوئی روزن بھی نہیں
جہاں سے روشنی الہام بن کر اترے
لیکن لفظ کے جگنو نے
اپنی روشنی سے اس میں
سوراخ کر ڈالا ہے
وہ دیکھو
لفظ دیکھ رہا ہے
لیکن نہیں
وہ تو جا چکا ہے
اور
صدیوں سے مقفل خاموشی
کروٹ لے کر پھر سو چکی ہے