سر بہ زانوں کوئی فن کار الگ بیٹھا ہے
سر بہ زانوں کوئی فن کار الگ بیٹھا ہے
میں یہاں ہوں مرا کردار الگ بیٹھا ہے
شہر میں نامۂ تقدیس لکھا جائے گا
مطمئن ہوں مرا انکار الگ بیٹھا ہے
تیری تعریف میں سب بول رہے ہیں لیکن
اس پہ حیرت ہے کہ معیار الگ بیٹھا ہے
غیر محفوظ ہیں دیوار بنانے والے
اور شہنشہ سر مینار الگ بیٹھا ہے
اب دباؤ گے تو پتھر سے نکل آئے گی
ایک آواز کا حق دار الگ بیٹھا ہے