یہ لگ رہا ہے رگ جاں پہ لا کے چھوڑی ہے
یہ لگ رہا ہے رگ جاں پہ لا کے چھوڑی ہے
کسی نے آگ بہت پاس آ کے چھوڑی ہے
گھروں کے آئنے صورت گنوا کے بیٹھ گئے
ہوا نے دھول بھی اوپر اڑا کے چھوڑی ہے
یہ اب کھلا کہ اسی میں مری نجات بھی تھی
جو چیز میں نے بہت آزما کے چھوڑی ہے
ہوا کا جبر کہیں بیچ میں تھما ہی نہیں
تری گلی بھی بہت دل دکھا کے چھوڑی ہے
کمالؔ دیکھنا یہ خیمۂ حسین ہے کیا
کسی نے دل میں کوئی شے جلا کے چھوڑی ہے