سناٹا

دل کشی گو افق تا افق ہے مگر
دل کشی کچھ نہیں
سر خوشی بھی طبق در طبق ہے مگر
سر خوشی کچھ نہیں
راگنی کچھ نہیں چاندنی کچھ نہیں
آنچلوں میں کوئی سرسراہٹ نہیں
پائلوں کی کہیں چھن چھناہٹ نہیں
پنگھٹوں پر بھی کچھ گنگناہٹ نہیں
رسمساہٹ نہیں جگمگاہٹ نہیں
مسکراہٹ نہیں
چپ ہیں پگڈنڈیاں
سرنگوں بالیاں
سوگ میں غرق ہیں سر بہ سر کھیتیاں
بیوگی کا سماں
قہقہوں پر ہے آہ و فغاں کا گماں
زندگی ایک بار گراں
سارے سینوں میں ہے اک خلش اک جلن
گریۂ غم کا ہر سو چلن
دل کی دھڑکن ہے سسکاریوں کی طرح
دیش ہے مبتلا روگ میں
آدمی غرق ہے سوگ میں
دھرتی آزار ہو کر بھی تاراج ہے
زندگی کی کہیں کوئی آہٹ نہیں
دور تک موت ہی موت کا راج ہے
آدمی اک تبسم کو محتاج ہے