سمجھو کہ ہر بلا سے حفاظت میں کٹ گئی

سمجھو کہ ہر بلا سے حفاظت میں کٹ گئی
انسان کی جو رات عبادت میں کٹ گئی


اس کو سکون مل نہیں سکتا فقیری میں
عمر دراز جس کی سیاست میں کٹ گئی


اپنوں کے واسطے میں نے سب کچھ لٹا دیا
شہ رگ بچی تھی وہ بھی محبت میں کٹ گئی


قربانی دی ہمیشہ میں نے ملک کے لیے
گردن بھی میری اس کی حفاظت میں کٹ گئی


کھوئی ہیں کتنی سنتیں ہم نے حضور کی
داڑھی بھی اس زمانے کی صحبت میں کٹ گئی


ہم کو تو چاہیے تھا محبت ہی بانٹتے
افسوس ہے کہ عمر یہ نفرت میں کٹ گئی


رب کے حضور حاضری کا جب یقین تھا
تو کیوں یہ زندگی تری غفلت میں کٹ گئی


دشوار تھا سفر یوں تو ہادیؔ کے واسطے
لیکن یہ راہ تیری رفاقت میں کٹ گئی